Your cart is empty now.
حقیقت ِ روزہ
روزہ اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں روزے کی فرضیت کے متعلق ارشاد فرمایا ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ پس روزہ کا حقیقی مقصد انسان کو متقی بنانا ہے اگر تقویٰ حاصل ہوگا تو ہی قرآن سے بھی راہنمائی، نور اور صراطِ مستقیم حاصل ہوگا اور ایک مسلمان ان تمام امور سے پرہیز کرے گا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن۔ روزہ کا ظاہر تو صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنا اور ان تمام مکروہات اور ممنوعات سے پرہیز کرنا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ روزہ کا باطن یہ ہے کہ ان تمام امور، نفسانی امراض اور ممنوعات سے دائمی طور پر بچا جائے جو روزہ کی حالت میں ترک کی گئی ہیں۔ اگر روزہ رکھنے کے باوجود ان تمام امور کو ترک نہ کیا جائے تو محض بھوک پیاس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی لیے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اکثریت روزہ داروں کی ایسی ہے جنہیں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اگر روزہ کی فرضیت کے اصل مفہوم کو سمجھتے ہوئے روزہ رکھا جائے اور اس کی روح کو برقرار رکھا جائے تو اس کی اجر بہت عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’روزہ میرے لیے ہے اور اسکی جزا میں خود ہوں۔‘‘ کسی بھی دوسری عبادت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس کی جزا اللہ تعالیٰ خود ہے۔ روزہ واحد عبادت ہے جس کو اگر اس کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے ادا کیا جائے تو اللہ تعالیٰ بدلے میں اپنا قرب اور اپنی ذات عطا کرتا ہے۔
حقیقت ِ روزہ سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخ ِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی تصنیف ِ مبارکہ ہے جس میں آپ مدظلہ الاقدس نے روزہ کی فرضیت کو قرآن و حدیث کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس جامع کتاب میں صوفیا و فقرا کے اقوال کی روشنی میں فرضیت ِ روزہ کی باطنی حقیقت کو بھی بہت خوبصورت پیرایہ میں بیان فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک میں کی جانے والی عبادات اور اس کا اجر و ثواب، سحر و افطار کے فضائل اور اعتکاف کی اہمیت کے ساتھ ساتھ شب ِ قدر کی علامات و عبادات کے متعلق بھی بیان کیا گیا ہے تاکہ روزہ دار روزے کے مفہوم اور مقصد کو سمجھتے ہوئے روزہ رکھے یہ نہ ہو کہ اسے روزہ سے سوائے بھوک اور پیاس کچھ حاصل نہ ہو بلکہ وہ روزہ کے ذریعے تقویٰ حاصل کرے اور اللہ کے قرب کا حقدار ٹھہرے۔